دھول۔

رات کا تیسرا پہر تھا۔ پوش علاقے کے اس گھر میں سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ سڑک کے غل سے دور یہ ایک پرسکون بنگلہ تھا۔

رات میں اوس اور گرد کی بھینی بھینی مہک تھی۔ آج قمری مہینے کی ابتدائ تاریخ تھی اور چاند بھی موجود نہ تھا۔

تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک نوجوان دیوار پھلانگ کر عقبی حصے سے اس عالی شان گھر کے لان میں داخل ہوا۔ تراش خراش سے پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا، جیسے اسی ماڈرن کالونی کا باسی ہو۔ بڑی سرعت سے دیواروں کی اوٹ میں چھپتا ہوا چلنے لگا۔ بیڈ روم کی پشت پر موجود کھڑکی کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ جھک کر یوں گزرا کہ ساتھ والے مکان سے آنے والی روشنی منقطع تک نہ ہوئ اور اسکا اپنا سایہ کھڑکی پر نہ پڑسکا۔ وہ مکان کی عمارت کے گرد گھومتا ہوا سامنے کے حصے تک پہنچ چکا تھا۔ اب اس نے اپنی جیب سے ایک چابی نما اوزار نکالا اور مرکزی دروازے کے لاک کو کھولنے لگا۔ کچھ منٹوں میں لاک ٹک کی آواز سے کھل گیا۔ ہینڈل گھومنے اور دروازہ کھلنے کے بعد باہر اور کوئ آواز نہ آئ۔

اس صبح میں دھوپ تو نہیں تھی، لیکن اکرم صاحب کے گھر میں رونما ہونے والی واردات کے پے درپے تذکرے نے کالونی کی فضا میں حدت پیدا کر دی تھی۔ کہنے والا کہہ رہا تھا، کہ چور بڑا غیرت مند تھا! اکرم صاحب کے گھر میں موجود کیش، ان کی بیوی کے زیورات اور بیشتر قیمتی اشیاء سمیت ہر چیز لے گیا۔ لیکن اسی الماری میں مسز اکرم کو جہیز میں ملنے والے قیمتی قرآن پاک کو ہاتھ تک نہ لگایا، کیونکہ اس پر موجود دھول جوں کی توں تھی!

سننے والوں میں سے ایک عمر رسیدہ اماں نے یہ بھی سوچا:

‘کہ اکرم صاحب کے خاندان کی طرح شاید اس چور کو بھی قرآن کی ضرورت نہ ہو’۔


مصنف: محمد ارشد علیم۔

4 thoughts on “دھول۔

  1. کمال کیا ہوا ہے، ارشد بھیا….
    اللہ تعالیٰ ٹیکنالوجی اور فوٹو گرافی کی دنیا کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا میں ترقی دیں….

    Liked by 1 person

Leave a comment